Friday, May 27, 2011

معذوروں کی تحریک

تحریر:حکیم عبدالرشید
سنا ہے کہ پریس کالونی سرینگر میں کئی روز سے معذور افراد بھوک ہڑتال پر ہیں اور ان میں سے کئی اشخاص پر بے ہوشی طاری ہو چکی ہے ۔محمد سبحان نے کہتے ہوئے عبد الستار سے پوچھا کیا لگتا ہے انکے مطالبات اب پورے ہونگے کیا ؟عبد الستار نے کہا محمد سبحان تم تو جانتے ہی ہو یہا ں احتجاج اور بھوک ہڑتال وغیرہ کوئی نئی بات نہیں البتہ یہ کام صرف سیاستدان حضرات تک محدود تھا تاکہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ بھی ہوتے لیکن انکا مطلب نکل آتا تھا وہ میڈیا پہ چھا کر قوم کے ہمدرد اور لیڈر مانے جاتے لیکن اب ان سیاست کاروں کے بجائے ملازمین ۔تاجر ،طلباء ،بے روز گار،ڈیلی ویجر ،ڈاکٹر ،انجینئر ،غرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات اپنے اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج کرتے رہتے ہیں اور اب یہ جسمانی طور ناخیز افراد بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہے اب تمہارا یہ سوال کہ کیا اس احتجاج سے انکے مطالبات پورے ہونگے ؟تو کیا کیا جا سکتا ہے البتہ جہاں تک میرا تجربہ ہے اور شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بر حق ہے کہ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر بھر سلا دیتی ہے اسکو حکمران کی ساحری ۔‘‘گویا جب بھی کوئی محکوم حاکموں کے سامنے مطالبات کو زور دار طریقہ سے منوانے کیلئے متحد ہو کر سامنے آتا ہے تو حکمران پہلے اسکی طرف متوجہ ہوتے ہی نہیں تاکہ یہ تھک ہار کر خود بیٹھ جائے لیکن جب اسکے مطالبے میں زور پیدا ہوتا ہے تو حکمران مطالبات منوانے کے طریقہ کار پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم بھوک ہڑتال کا طریقہ ترک کرو اور یہ خود سوزی اور دیگر سخت دھمکیاں دینا بند کر دو اپنے مطالبات کی فہرست لیکر سامنے آو اور مذاکرات کا طریقہ اختیار کر کے ہر مطالبہ پر بات ہو سکتی ہے ۔اگر مطالیات کرنے والے اس حکومتی دھمکی سے مرعوب ہوئے اور انکے اتحاد میں شگاف پڑ گیا تو انکے حوصلے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں اسطرح نہ مذاکرات ہو پاتے ہیں اور نہ مطالبات پورے ہو پاتے ہیں لیکن یہاں اگر مطالبات کرنے والوں کی وحدت قائم ہی اور انہوں نے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا تو جسکو طاقت کے استعمال پر اتر آتی ہے ۔پھر تشدد ہوتا ہے اور گرفتاریاں بھی اگر اس تشدد اور گرفتاریوں کے بعد مطالبات کرنے والے لوگ منتشر ہوئے تو پھر اس مطالباتی تحریک کو ٹالدیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی نہ لگے تو پھر لازماً ان میں پھوٹ ڈال کر انکے دو حصے کئے جاتے ہیں ۔ایک حصے کو سخت گیراور ایک کو نرم روکی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے ۔اسطرح نرم رو حضرت کو مشکوک بنا کر ان کا صفایا کرایا جاتا ہے اور سخت گیروں پر طاقت کا استعمال کرنے کیلئے یہ جواز دیا جاتا ہے کہ یہ لو گ بات کرتے ہی نہیں اسطرح ایک ہی مطالبہ لیکر خلوص نیت سے جدوجہد کرنے والے الگ الگ ہو کر حکمرانوں کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں جہاں انہیں یہاں بھی ہلاکت اور وہاں بھی ہلاکت ہی ہو جاتی ہے ۔ان حالات میں یہ مطالبات کرنے والے لوگوں کی سوجھ بوجھ پر منحصر ہے اگر وہ ایک دوسرے کو شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھے بغیر متحدہ طور چند لوگوں کو مذاکرات کیلئے آمادہ بھی کریں اور باہر احتجاج کی شدت کو کم بھی نہ ہونے دیں تو ممکن ہے کہ انکے مطالبات پورا کرنے کیلئے پھر حکمرانوں کو مجبور ہونا پڑے گا اور ہاں خود سوزی جیسے احتجاجی صورتوں کے بجائے ایسے احتجاجی پروگرام ترتیب دے جانے چاہیے جس سے کسی کی قیمتی جان بھی نہ چلی جائے اور احتجاج کو دیر تک جاری بھی رکھا جائے اور حکومت کیلئے طاقت کے استعمال کا جواز بھی نہ رہے ۔یہ طریقہ کار کیا ہو گا اسکے لئے جسمانی طور معذور افراد کی قیادت کو غور وفکر کرنا ہو گا ۔انہیں چاہیے کہ ایسے پروگرام ترتیب دیں جس سے انکی تحریک بھی چلے اور کسی تھکاوٹ اور نقصان کے بغیر مطالبات کی منظوری کیلئے بامعنی مذاکرات کا راستہ بھی نکل آئے اور اتحاد ہی سے اپنی منزل کو یہ لوگ پا سکتے ہیں ۔تقسیم اور انتشار کے بجائے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں سوجھ بوجھ اور اعتدال کے راستے پر چل کر ایک طرف پوری قومی ہمدردی حاصل کرنی چاہیے ۔دوسری طرف اپنی جد وجہد کو جدید تقاضوں کے مطابق چلاتے ہوئے کوئی بھی جذباتی یا جلد بازی کی حرکت نہیں کرنی چاہیے ۔اگر انہوں نے ایسا کیا تو تم دیکھو گے محمد سبحان انکے مطالبات آج نہیں تو کل پورے ہونگے ۔محمد سبحان نے کہا عبد الستار تم نے میرے ایک محدود سوال کا جواب جو میں نے جسمانی طور ناخیز افراد کے مطالبات کے حوالے سے پوچھا تھا اسطرح جواب دیا جس سے تمہارے پورے تجربات سامنے آئے بے شک جیسا کہ تم نے کہا اگر یہ لوگ کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنی صفوں کو متحدر کھتے ہوئے اعتدال کیساتھ تحریک بھی چلاتے رہے اور مذاکرات بھی تو یہ لوگ تو قعہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں یہی لوگ کیا میں تو یہاں تک کہدونگا تمہارے بیان کروں تجربات میں ان قایدین کیلئے بھی شاید نسخہ ہے جو قومی سطح کی تحریک چلانے کے دعویٰ کر رہے ہیں اگر وہ لوگ تمہارے نسخہ پر عمل کریں تو کشمیریوں کی تحریک بھی اپنی منزل سے ہمکنار ہو سکتی ہے اور تحریک کو تو قصات سے زیادہ مؤثر طریقہ پر چلاتے ہوئے قوم کے مطالبہ حق خود ارادیت کو منوایا جا سکتا ہے اور کم ازکم نقصان کے باوجود دیر سے ہی سہی قوم کو عزت اور وقار اور سر خروی دلانے میں قیادت کامیاب ہو سکتی ہے ورنہ جس انداز سے آج تک تحریک چلی شاید اس میں اسی کمی کے سبب یہ قوم طویل جد وجہد اور بے پناہ نقصان کے باوجود اپنے ہدف کو نہ پاسکتی اسلئے شاید وقت آگیا ہے کہ تحریکی قائدین کو متحداور منظم ہو کر معتدل اور مسلسل پروگرام ترتیب دیتے ہوئے بے شک قلیل مدتی اور طویل مدتی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اور ہندوستان اور پاکستان کیساتھ روابطہ بڑھاتے ہو مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نہ تو پاکستان کی عدم موجودگی میں مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکل سکتا ہے اور نہ ہی بھارت کے طاقت کیساتھ ٹکراتے ہوئے ہم منزل تک پہنچ سکتے ہیں اسلئے اعتدال مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے کسی جھکاؤ اور تھکاوٹ کے بغیر اپنی منزل اور حق کو پانے کی جد وجہد کو جاری رکھا جانا چاہیے ۔
بشکریہ روزنامہ ایشین میل

0 comments:

  © Thanks for visiting Only Kashmir

Back to TOP