PRESS CONFERECE OF MIRWAIZ UMAR FAROOQ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج ۲۱ مئی کو کشمیری عوام اپنے محبوب اور بے باک مذہبی و سیاسی قائد جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل کے بانی سربراہ شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب ، شہید حریت خواجہ عبدالغنی لون اور ۲۱ مئی ۱۹۹۰ء کے خونین سانحہ میں ۷۰ سے زیادہ شہدائے حول اور آج تک کے تمام شہیدوں کو حسب معمول اجتماعی طور پر خراج عقیدت اور انکے حق میں فاتحہ خوانی کیلئے پر امن طور پرمزاج شہداء عیدگاہ سرینگر میں جمع ہونا تھا اور پھر جہاں ۲۰۰۷ء میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی جانب سے اعلان اور پروگرام کے مطابق ان قومی شہیدوں کی یاد میں دیوار شہدا کا سنگ بنیاد رکھنا تھا لیکن بدقسمتی سے حکومت وقت نے آج ایک بار پھر اپنی بدترین آمریت اور تاناشاہی کا مظاہرہ کرکے آج کی تقریبات کو ناممکن بنانے کی مذموم کوشش کی۔ چنانچہ پولیس اور فورسز نے رات سے ہی شبانہ چھاپوں میں سینکڑووں تنظیمی عہدیداروں اور کارکنو کو نہ صرف حراست میں لے لیا ہے بلکہ ہر چہار سو خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول برپا کیا گیاہے۔
حریت کے سرکردہ قائدین اور سینئر عہدیداروں جن میں جناب آغا سید حسن الموسوی الصفوی، جناب پروفیسر عبدالغنی بٹ، جناب بلال غنی لون، جناب شبیرشاہ ، جناب مختار احمد وازہ ، جناب نعیم احمد خان، ظفر اکبر بٹ، ایڈوکیٹ شاہد الاسلام وغیرہ شامل ہیں نہ صرف اپنے گھروں میں نظر بند کردئے گئے ہیں بلکہ دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں جن میں محترم یاسین ملک ، جاوید احمد میر، بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی وغیرہ کی نقل و حمل پر بھی سخت پابندی عائد ہے ۔ ہم ان غیر جمہوری اور آمرانہ کارروائیوں کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔
پورے کشمیر میں عملاً اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرکے جگہ جگہ بھاری تعداد میں پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے اور مزار شہداء عیدگاہ آنے جانے کے تمام راستے سیل کردئے گئے ہیں۔
حکومت وقت نے طاقت کے بل پر عوامی جذبات و احساسات کو دبانے کی کوشش کی ہے کیونکہ آج قوم بالخصوص شہیدوں کے عزیز و اقرباء جن کے لخت جگر ۲۱ مئی ۱۹۹۰ ء کو شہید رہنما کے جسد خاکی کو کندھا دیتے وقت اسلامیہ کالج حول کے نزدیک اندھا دھند فائرنگ میں بے دردی سے شہید کردئے گئے تھے کو یاد کرنے اورانہیں عقیدت کے پھول نذر کرنے کیلئے جمع ہوتے۔
یہاں میں حکومت وقت سے کہناچاہتا ہوں کہ کشمیر ی عوامی اپنے شہیدوں، سرفروشوں اور محسنوں جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کرکے اپنا آج ہمارے درخشاں مستقبل کیلئے قربان کیا ہے آج نہیں تو کل شہیدوں کی یادگار قائم کرکے ہی رہیں گے۔انشاء اللہ
البتہ حکومت نے اپنے اس ظالمانہ اور فسطائی قدم سے اپنے سیاہ کارناموں میں ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے
اس مرحلے پرمیں حکومت ہند سے بھی یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیاانہوں نے اپنے ان شہیدوں کی یاد میں جنہوں نے آزادی ہند کیلئے اپنی جانیں نچھاور کیں یادگاریں قائم نہیں کی ہیں؟کیا بھارت کے چپے چپے میں جیسے جلیانوالا باغ، جنتر منتر،سبھاش چندر مارگ، راج گھاٹ، امر جیوتی پر بھارت کے ان شہیدوں کی جنہوں نے آزادی ہند کیلئے اپنی جانیں قربان کی تھیں کی یاد میں تعمیر نہیں کی گئی؟ ہیں کیا بھارت کے عوام ہر سال ان شہیدوں کی قربانیوں کو یاد نہیں کرتے ؟
پھر آخر ہمیں کیوں اپنے سرفروشوں کو یاد کرنے سے روکا جارہا ہے، قدغن لگایا جارہا ہے ، کیا بھارت اپنے اس دہرے معیار سے خود اپنی جمہوریت کے دعوؤں کی قلعی نہیں کھول رہا ہے ۔ افسوس ہمیں اپنے لخت جگروں اور عزیزوں کی فاتحہ خوانی اور انہیں یاد کرنے سے طاقت کے بل پر روکا جارہا ہے جو انہتائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔
ایک طرف حکومت ہند بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف کشمیر کے طول و ارض میں ظلم و جبر اور قید و بند کا بازار گرم رکھا گیا ہے انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہمیں اپنے بچھڑے عزیزوں کو یاد کرنے کے حق سے بھی محروم کیا جارہا ہے ۔
ہم ان ظالمانہ اقدام سے نہ تو پہلے مرعوب ہوئے ہیں اور نہ ہی آگے ہوں گے بلکہ ان سے ہمارے شہیدو ں کے پاک مشن کی آبیاری اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہمارے عزائم میں مزید پختہ گی پیدا ہوگی اور ہم اپنی منزل حاصل کرکے رہیں گے۔ انشاء اللہ
میں پریس اور پرنٹ میڈیا کے معزز نمائندوں جنہوں نے مشکل اور ناموافق حالات میں بھی میری رہائش گاہ تک آنے کی زحمت فرمائی ، کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور حکومت کی طرف سے انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روکنے کے عمل کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
حریت کے سرکردہ قائدین اور سینئر عہدیداروں جن میں جناب آغا سید حسن الموسوی الصفوی، جناب پروفیسر عبدالغنی بٹ، جناب بلال غنی لون، جناب شبیرشاہ ، جناب مختار احمد وازہ ، جناب نعیم احمد خان، ظفر اکبر بٹ، ایڈوکیٹ شاہد الاسلام وغیرہ شامل ہیں نہ صرف اپنے گھروں میں نظر بند کردئے گئے ہیں بلکہ دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں جن میں محترم یاسین ملک ، جاوید احمد میر، بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی وغیرہ کی نقل و حمل پر بھی سخت پابندی عائد ہے ۔ ہم ان غیر جمہوری اور آمرانہ کارروائیوں کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔
پورے کشمیر میں عملاً اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرکے جگہ جگہ بھاری تعداد میں پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے اور مزار شہداء عیدگاہ آنے جانے کے تمام راستے سیل کردئے گئے ہیں۔
حکومت وقت نے طاقت کے بل پر عوامی جذبات و احساسات کو دبانے کی کوشش کی ہے کیونکہ آج قوم بالخصوص شہیدوں کے عزیز و اقرباء جن کے لخت جگر ۲۱ مئی ۱۹۹۰ ء کو شہید رہنما کے جسد خاکی کو کندھا دیتے وقت اسلامیہ کالج حول کے نزدیک اندھا دھند فائرنگ میں بے دردی سے شہید کردئے گئے تھے کو یاد کرنے اورانہیں عقیدت کے پھول نذر کرنے کیلئے جمع ہوتے۔
یہاں میں حکومت وقت سے کہناچاہتا ہوں کہ کشمیر ی عوامی اپنے شہیدوں، سرفروشوں اور محسنوں جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کرکے اپنا آج ہمارے درخشاں مستقبل کیلئے قربان کیا ہے آج نہیں تو کل شہیدوں کی یادگار قائم کرکے ہی رہیں گے۔انشاء اللہ
البتہ حکومت نے اپنے اس ظالمانہ اور فسطائی قدم سے اپنے سیاہ کارناموں میں ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے
اس مرحلے پرمیں حکومت ہند سے بھی یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیاانہوں نے اپنے ان شہیدوں کی یاد میں جنہوں نے آزادی ہند کیلئے اپنی جانیں نچھاور کیں یادگاریں قائم نہیں کی ہیں؟کیا بھارت کے چپے چپے میں جیسے جلیانوالا باغ، جنتر منتر،سبھاش چندر مارگ، راج گھاٹ، امر جیوتی پر بھارت کے ان شہیدوں کی جنہوں نے آزادی ہند کیلئے اپنی جانیں قربان کی تھیں کی یاد میں تعمیر نہیں کی گئی؟ ہیں کیا بھارت کے عوام ہر سال ان شہیدوں کی قربانیوں کو یاد نہیں کرتے ؟
پھر آخر ہمیں کیوں اپنے سرفروشوں کو یاد کرنے سے روکا جارہا ہے، قدغن لگایا جارہا ہے ، کیا بھارت اپنے اس دہرے معیار سے خود اپنی جمہوریت کے دعوؤں کی قلعی نہیں کھول رہا ہے ۔ افسوس ہمیں اپنے لخت جگروں اور عزیزوں کی فاتحہ خوانی اور انہیں یاد کرنے سے طاقت کے بل پر روکا جارہا ہے جو انہتائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔
ایک طرف حکومت ہند بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف کشمیر کے طول و ارض میں ظلم و جبر اور قید و بند کا بازار گرم رکھا گیا ہے انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہمیں اپنے بچھڑے عزیزوں کو یاد کرنے کے حق سے بھی محروم کیا جارہا ہے ۔
ہم ان ظالمانہ اقدام سے نہ تو پہلے مرعوب ہوئے ہیں اور نہ ہی آگے ہوں گے بلکہ ان سے ہمارے شہیدو ں کے پاک مشن کی آبیاری اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہمارے عزائم میں مزید پختہ گی پیدا ہوگی اور ہم اپنی منزل حاصل کرکے رہیں گے۔ انشاء اللہ
میں پریس اور پرنٹ میڈیا کے معزز نمائندوں جنہوں نے مشکل اور ناموافق حالات میں بھی میری رہائش گاہ تک آنے کی زحمت فرمائی ، کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور حکومت کی طرف سے انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روکنے کے عمل کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
1 comments:
Choice choice mirwaiz
Post a Comment